'Who will be responsible if my sons are harmed?' mother pleads in court
JournalismPakistan.com | Published 7 months ago | JP Staff Report
Join our WhatsApp channel
ISLAMABAD—The Islamabad High Court (IHC) has ordered the Inspector General (IG) of Islamabad police to appear personally on March 26 in connection with the alleged abduction of journalist Ahmad Noorani’s brothers.
Justice Inam Amin Minhas presided over the hearing of a petition filed by Noorani’s mother, Amina Bashir, who broke down in tears while pleading for her sons' safe recovery. Advocate Imaan Mazari represented the family in court.
Amina emotionally questioned whether the court would take responsibility if any harm came to her sons. The family claims that Noorani’s two brothers—both engineers—were forcibly taken from their Islamabad residence by unidentified personnel from intelligence agencies in the early hours of Tuesday.
Noorani, a journalist based in the United States, alleged on social media that his family was targeted due to his investigative reporting. However, the involvement of intelligence agencies remains unverified.
During the hearing, the Station House Officer (SHO) of Thana Noon submitted a report stating that police had conducted geofencing, analyzed call records, and reviewed CCTV footage but found no conclusive leads. Justice Minhas criticized the lack of progress and directed the IG Islamabad to personally supervise the investigation.
Advocate Mazari argued that the police had failed to register a formal case despite five days passing since the abduction. Justice Minhas, however, clarified that the priority was recovery, not litigation, and adjourned the hearing until March 26.
میرے بیٹوں کو نقصان پہنچا تو جواب دہ کون ہوگا؟ والدہ کا عدالت میں دردناک سوال
اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے صحافی احمد نورانی کے بھائیوں کے اغوا کے معاملے میں اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) کو 26 مارچ کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس انعام امین منہاس نے نورانی کی والدہ، آمنہ بشیر کی دائر کردہ درخواست کی سماعت کی، جو اپنے بیٹوں کی بحفاظت بازیابی کی التجا کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔ عدالت میں خاندان کی نمائندگی ایڈووکیٹ ایمان مزاری نے کی۔
امینہ نے جذباتی انداز میں سوال کیا کہ اگر ان کے بیٹوں کو کچھ ہوا تو کیا عدالت ذمہ دار ہوگی؟ گزشتہ ہفتے، صحافی کے خاندان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے دو بھائیوں کو اسلام آباد کے گھر سے نامعلوم ایجنسیوں کے افراد نے اغوا کیا۔
نورانی، جو امریکہ میں مقیم ہیں، نے سوشل میڈیا پر الزام لگایا کہ ان کی ایک رپورٹ کی وجہ سے نہ صرف ان کے خاندان کو ہراساں کیا گیا بلکہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ درخواست میں کہا گیا کہ منگل کی رات 1:05 بجے، ان کے دو بیٹوں کو اغوا کر لیا گیا۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ "یہ دونوں انجینئر ہیں اور ان کا اپنے بھائی احمد نورانی کی رپورٹنگ یا تحقیقاتی صحافت سے کوئی تعلق نہیں۔" امینہ نے دفاع، داخلہ کے سیکرٹریز، پولیس آئی جی، اور تھانہ نون کے ایس ایچ او کو فریق بناتے ہوئے عدالت سے فوری بازیابی کی اپیل کی۔
تھانہ نون کے ایس ایچ او نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام دستیاب ذرائع استعمال کر رہے ہیں، جیو فینسنگ اور کال ڈیٹا ریکارڈز حاصل کیے گئے ہیں۔ جسٹس منہاس نے کہا کہ رپورٹ میں کوئی حتمی نتیجہ نہیں دیا گیا۔
وکیل مزاری نے سوال اٹھایا کہ "پولیس بغیر ایف آئی آر کے پانچ دن سے کیسے تحقیقات کر رہی ہے؟" جسٹس منہاس نے جواب دیا کہ وہ آئی جی اسلام آباد کو طلب کریں گے، جو تحقیقات کی نگرانی کریں گے۔ مزاری نے الزام لگایا کہ ایجنسیاں براہ راست ملوث ہیں۔
عدالت نے 26 مارچ تک سماعت ملتوی کر دی۔













